عاشوراء اور اس کے نتائج و آثار، مؤثر ترین اور زندہ جاوید واقعہ ہے جو اسلام کی تاریخ میں بنیادی تبدیلیوں کا باعث ہوا۔ اس قیام کے آثار و نتائج زمانہ وقوع حادثہ اور اس کے نزدیکی برسوں میں منحصر نہیں ہیں
قارئین کیلئے محدود نہیں ہوتا ہے لیکن عملی طورپر یہ ان کے ادراک کی سطح کی عکاسی کرتا ہے اور اسی کے مطابق تفسیر کی جاتی ہے۔
امام خمینی (ره) مجموعی جائزے میں قرآن میں قصص بیان کئے جانے کی بنیاد معارف کی جانب توجہ دلانے کے مقصد کو قرار دیتے ہیں
مجاز یعنی لفظ کو اس معنی میں استعمال کیا جائے جس کیلئے وضع نہ کیا گیا ہو۔ یہ مجاز حقیقت کے مقابلے میں بیان کیا جاتا ہے اور علم معانی میں بیان ہوا ہے
اس زمانے سے ہی علمائے اہل سنت اور شیعہ نے بڑی استقامت سے قرآن کا دفاع کیا اور تاریخی اسناد وشواہد، آیات وروایات کے ساته قرآن کے تحریف سے پاک ہونے کو ثابت کیا
اب ہم ان مختلف حجابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کا امام خمینی (ره) نے اس سلسلے میں ذکر کیا ہے اور ان کے خطروں کو بیان کیا ہے
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو صاحب ایمان جوانی میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے، قرآن اس کے گوشت اور خون میں داخل ہوجاتا ہے اور خدا اس کو نیکوکاروں کےدسترخوان پر بٹهائے گا اور وہ آخرت میں قرآن کی پناہ میں ہوگا
جامعیت یعنی احکام اور ہدایات کا ایسا مجموعہ جو ہر زمانے میں انسان کی خوش بختی اور سعادت کے حصول اور اس کی ضروریات کو پورا کرے اور اگر یہ فرامین، احکامات اور قوانین کی تشریح نہ ہو تو انسان سعادت وکمال سے ہمکنار نہ ہوسکے
قرآن کی طرف بازگشت کا سبب مغرب اور یورپی سامراج کے مقابلے میں مسلمانوں کی کمزوری، ان کی توہین اور مشرق کے معاشروں میں پایا جانے والا احساس پسماندگی تها
قرآن کے بارے میں امام خمینی (ره) کے نظرئیے سے آگاہ ہونے کیلئے اس کتاب کے نزول کے مقاصد سے متعلق آپ کے زاویہ نگاہ کا جائزہ لیا جانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے